۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
بعثت

حوزہ/ ٢٧ رجب المرجب آغاز نزول قرآن یعنی اعلان بعثت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس کے بارے میں خود آنحضرت نے فرمایا ہے "بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" یعنی میں اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث ہوا ہوں اور اخلاق ایسی ثقافت ہے جس کے بغیر ہر دین، مذہب، سماج ، قوم ، سیاست اور جماعت ناقص ہے۔

تحریر: آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب"

حوزہ نیوز ایجنسی بہر حال  ظہور رسالت اور اعلان مبعث کا دن آ پہنچا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ٢٧رجب ۴۰ عام الفیل مطابق 610 عیسوی ، چالیس سال کی عمر میں ظاہری طور پر پیغمبری کے عہدے  پر فائز ہونے کی رسم ادا ہونے کا وقت آپہنچا  اور ملائکوں نے عید مبعث کا اہتمام کیا ۔ اس دن آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا میں عبادت کررہے تھے  کہ اتنے میں حضرت جبرئیل امین نازل ہوئے،اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن  کی چند آیتیں(٦) تلاوت کرکے خبر دی کہ آنحضرت اللہ سبحان و تعالی کے برگزیدہ پیغمبر آخر الزمان ہیں اور کہا کہ وحی بیان کرنا شروع کریں:بسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحیمِ. اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ. اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ. اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ …
حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر آخر الزمان ہیں کہ جنہیں اللہ سبحان و تعالی نے انسان کی ھدایت اور رہنمائی کیلۓ منتخب کیا ہے ۔آنحضور کانام مبارک: محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)بعض آسمانی کتابوں میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام احمد  آیا ہےاور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وھب نے جناب عبد المطلب کے نام رکھنے سے پہلے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا نام احمد رکھا تھا (۱)
بحارالانوار میں آنحضور کے آباء و اجداد کے اسامی گرامی یوں بیان کئے گئے ہیں :محمدبن عبداللَّه بن عبدالمطلب شیبةالمحمدبن هاشم‏بن عمروبن عبد مناف‏بن مغیرةبن قصىّ‏بن زیدبن کلاب‏بن مرةبن کعب‏بن لوى‏بن غالب‏بن فهربن مالک‏بن نضربن قریش‏بن کنانةبن خزیمةبن مدرکةبن الیاس‏بن مضربن نزاربن معدبن عدنان‏بن ادبن اددبن یسمع‏بن همیسع‏بن سلامان بن بنت‏بن حمل‏بن قیداربن اسماعیل‏بن ابراهیم(علیہ السلام) بن تارخ‏بن ناخوربن ساروغ‏بن ارغوبن فالغ‏بن عابربن هود(علیہ السلام)بن شالخ‏بن ارفخشدبن سام‏بن نوح(علیہ السلام) بن ملک‏بن متوشلخ‏بن اخنوخ و آورده‏اند که، اخنوخ همان ادریس(علیہ السلام)اور وہ باذربن هلایل‏بن قینان‏بن انوش‏بن شیث(علیہ السلام) بن هبةاللَّه‏بن آدم(علیہ السلام) کے فرزند تھے۔
کنیت: ابوالقاسم، ابوالطاهر، ابوالطیّب، ابوالمساکین، ابوالدُّرتین، ابوالریحانتین و ابوالسبطین۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب:رحمۃ للعالمین، رسول اللہ، خاتم النبین، نبی اللہ ، امی ، نور، نعمت ، رؤف، رحیم، منذر، مذکّر،شمس، نجم ، حم، سماء و تین، مصطفی، محمود ، امین ، مزّمل ، مدّثر، مبین، کریم، رحمت ، یس، طہ، حبیب اللہ، محمود، سید کائنات، تہامی، حمید، فاتح، رشید، خلیل، مشہود، شافی، ھادی، منجی، ناجی، ہاشمی، ابطحی، عزیز، منصور، مصباح، حجازی، قرشی، صادق، مبین، مبّشر، بشیر، نذیر، داعی، سراج منیر و.........
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) شیعہ روایت کے مطابق ١٧ ربیع الا ول اور سنی روایت کے مطابق ١٢ ربیع الاول ایک عام الفیل میں پیدا ہوے(٣)۔اور ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہونے سے پہلے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا میلاد شریف شیعہ سنی اختلاف کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا لیکن  امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی اس حوالے سے تاریخی فتوی صادر کرکے ١٢ ربیع الاول سے ١٧ ربیع الاول کا پورا ہفتہ میلاد النبی ہفتہ وحدت کے عنوان  سے منانے کا اعلان کردیا جو کہ ابتک اتحاد اسلامی کی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں اس ہفتے میں سنی شیعہ علماء مل بیٹھ کر ہفتہ وحدت کے عنوان سے میلاد النبی مناتے ہیں جسکی سالانہ مرکزی عالمی بین الاقوامی  وحدت کانفرنس کا اہتمام اسلامی جمہوری ایران کے دارلخلافہ تہران میں کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر کے سنی شیعہ علماء جمع ہو کر اتحاد و یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے والد گرامی (حضرت عبداللہ) تھے جنکی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کی ولارت سے دو مہینے پہلے وفات ہوگئی تھی اور والدہ ماجدہ آمنہ بنت وھب بن عبدمناف کی آنخصرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ولادت کے دو سال چار مہینے یا ایک دوسری روایت کے مطابق ٦ سال کے بعد وفات ہوئی ۔(۴)
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری آپکے دادا جناب عبدالمطلب پر آن پڑی اور جناب عبد المطلب کی رحلت کے بعد جناب ابو طالب (علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی کفالت او رسرپرستی کو قبول کیا (۵)
بہر حال  ظہور رسالت  اور اعلان مبعث کا دن آ پہنچا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ۲۷ رجب ۴۰ عام الفیل مطابق 610 عیسوی ، چالیس سال کی عمر میں ظاہری طور پر پیغمبری کے عہدے  پر فائز ہونے کی رسم ادا ہونے کا وقت آ پہنچا اور ملائکوں نے عید مبعث کا اہتمام کیا ۔ اس دن آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا میں عبادت کررہے تھے  کہ اتنے میں حضرت جبرئیل امین نازل ہوئے،اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن  کی چند آیتیں(٦) تلاوت کرکے خبر دی کہ آنحضرت اللہ سبحان و تعالی کے برگزیدہ پیغمبر آخر الزمان ہیں اور کہا کہ وحی بیان کرنا شروع کریں:
بسْمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحیمِ. اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذی خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ. اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ. اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ …
ایک روایت میں آیا ہے کہ اس وقت جبرئیل امین ٧٠ ہزار فرشتوں اور میکائیل ٧٠ ہزار فرشتوں کے ہمراہ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کیلۓ عزت و کر امت کی کرسی لائی اور نبوت کا عمامہ سرور دو عالم کے سر مبارک پر رکھا لواحی حمد انکے ہاتھوں میں دی اور کہا اس پر چڑھ کر اللہ کا شکرادا کریں ۔
دوسری روایت میں آیا ہے کہ کرسی سرخ یاقوت کی تھی جس کے پایے  زبرجد اور موتیوں کے تھے اور جب فرشتے آسمان کی طرف صعود کرنے لگے حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غار حرا سے نیچے آ‎ۓ انوار جلال نے ان کے چہرے کو کچھ اس طرح مجلل بنادیا تھا کہ کسی کو آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھنے کی جرئت نہیں ہوتی تھی۔جن درختوں اور پودوں کےپاس سے گزرتے تھے وہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے سامنے  تعظیم کرتے اور فصیح زبان میں کہتے تھے :
" السَّلامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللَّهِ، السَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ "۔
جب گھر میں داخل ہوئے تو آپکے چہرہ مبارک کے نور نے  ام المومنین حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کے گھر کو منور کردیا اور اس خاتون  نے سوال کیا: اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ کے  چہرے مبارک پر میں یہ کیسا نور دیکھ رہی ہوں؟ آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ میری رسالت کا نور ہے کہو :" «لا إله إلّا اللّه مُحَمَّد رَسُولُ اللَّهِ » "
ام المومنین حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا نے کہا: میں تو کئ سالوں سے آپکو پیغمبر مانتی ہوں اور اب شھادت بھی دیتی ہوں کہ خدائے  واحد کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور آنحضرت خدا کے رسول اور پیغمبر ہیں۔
اس طرح خواتین میں ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سب سے پہلے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  پر ایمان لائی ہیں (٧)اور مردوں میں امیرالمؤمنین حضرت علی  علیہ السلام سب سے پہلے آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لاۓ اور زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا ۔اسطرح ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے صحابی اور مومن  ہونے کا اعزاز اپنے لئے مخصوص کیا ۔
اور اسکے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب بھی نماز پڑھتے تھے  حضرت خدیجہ کبری(سلام اللہ علیہا) اور حضرت علی (علیہ السلام) انکے پیچہے اقتدا کرتے تھے(٨)
ان تینوں  شخصیات نے اپنی جان و مال سے اسلام کی پرورش کی اور اسے عالمگیر بنایا۔
اسطرح ٢٧ رجب المرجب آغاز نزول قرآن یعنی اعلان بعثت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس کے بارے میں خود آنحضرت نے فرمایا ہے "بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" یعنی میں اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث ہوا ہوں اور اخلاق ایسی ثقافت ہے جس کے بغیر ہر دین، مذہب، سماج ، قوم ، سیاست اور جماعت ناقص ہے اور دوسرے الفاظوں میں کہہ سکتے ہیں سبھی انسانوں کے درمیان  اخلاق مشترکات میں سے ہے جس کا نمونہ عمل رحمۃ للعالمین خاتم الانبیاء والمرسلین حبیب الہ العالمین حضرت محمد بن عبداللہ صلوات اللہ و سلامہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے۔اور آنحضرت کی ذات مبارکہ صرف مسلمانوں کیلئے مخصوص نہیں بلکہ اللہ سبحان و تعالی نے آنحضرت  کو تمام عالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
ہندوازم کی تعریف میں کہا گيا ہے کہ " ہندوازم خدا محوری اور دیگر ادیان پیغمبری محوری رکھتے ہیں "۔اور بودھ ازم کی تعریف میں کہا گيا ہے کہ:"بودھ ازم کا ماننا ہے کہ انسان کی مشکلات کا حل اس کے اندر ہے نہ کہ اسکے باہر"۔اسی طرح سیکھ مذہب کی تعریف میں کہا گيا ہے کہ:" سیکھ مذہب میں اندویشواس نہیں ہے اور ایک جمہوری مذہب ، امید اور خوشحالی کی کرن ہے۔ "اور عیسائیت کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ :" انسان اور انسانیت کی خدمت کرنا انسانیت کا فریضہ ہے"۔ اور اسلام کی تعلیمات میں ملتا ہے کہ :" ‎‎اسلام عقاید اور احکام کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہر مرحلے میں انسان کے تمام ضروریات کا جواب دیتا ہے"۔معلوم ہوتا ہے کہ ادیان اور مذاہب کے مشترکات اخلاق پر منحصر ہیں نہ کہ افتراق اور دشمنی پر اس اعتبار سے دنیا بھر کے جملہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر دیندار انسانوں کی خدمت میں بالعموم اور تین ملکوں ہندوستانی کشمیر ، پاکستانی کشمیر  اور چینی کشمیر کے پنڈت،سیکھ،عیسائی اور بودھ جوان و بزرگ خواتین و حضرات  کی خدمت  میں بالخصوص عید مبعث کی مناسبت سے مبارکباد  پیش کرتا ہوں۔خدا کا یہ عظیم تحفہ ھدایت عالم بشریت کو مبارک ہو۔

۔۔۔۔۔

·  حوالہ جات:
·  (۱) فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص) (جعفر سبحانی)، ص 59
· (۲) کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج1، ص 10
·(۳) کشف الغمہ، ج1، ص 17؛ منتهی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 13؛ تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 383؛ فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، ص 59
·(۴)منتہی الآمال، ج1، ص 44؛ فرازہای از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص 67
·(۵) ہمان و تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 384
·(۶) فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص 93؛ تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 385
·(۷)منتہی الآمال، ج1، ص 47
·(۸)فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص 95

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .